رواج ایسے بھی اپنائے گئے ہیں
گلے میں طوق پہنائے گئے ہیں
زمانے کے عجب اطوار دیکھے
ہمیں کچھ اور بتلائے گئے ہیں
گناہوں کو کہاں ہم ساتھ لائے
ہوئے پیدا تو نہلائے گئے ہیں
ہمیں بھیجا گیا ہے پاک کر کے
کہ دے کر غسل دفنائے گئے ہیں
یہ دنیا کھیل سمجھی یا تماشا
کھلونے دے کے بہلائے گئے ہیں
بہانہ کیا کرے کوئی یہاں پر
جو بھٹکے ہیں وہ سمجھائے گئے ہیں
ہمیں جانے پہ کب قدرت ہے حاصل
کہاں آتے تھے ، ہم لائے گئے ہیں
اسی دنیا میں جنّت اور جہنّم
یہیں پر امتحاں پائے گئے ہیں
ہوئے ماں باپ رخصت تب یہ سمجھے
ہمارے سر سے اب سائے گئے ہیں
کوئی موسم نہیں بھاتا ہے طارقؔ
کہاں پیارے وہ سب ، ہائے گئے ہیں

0
10