پادری ، ملّا ، سیاست کے مصاحب ٹھہرے
بے وجہ ظلم کا باعث ہیں مذاہب ٹھہرے
جب کبھی خوفِ خدا یاد دلایا میں نے
میرے اشعار کے ظالم ہیں مخاطب ٹھہرے
جب مقابل پہ ہوں فرعون زمانے کے کھڑے
بیٹھ کر گفت و شنید ان سے مناسب ٹھہرے
ان کو طاقت کا نشہ ، دعویٰ خدائی کا ہے
پھر تو زیبا ہے خدا ان کا محاسب ٹھہرے
چاہئیے ظلم کو روکیں ، کریں آواز بلند
جن پہ نظریں ہیں ، بڑے جن کے مناصب ٹھہرے
ہوں پسندیدہ عمل قربِ خدا کا باعث
ہیں بڑے نیکی کے بدلے میں مراتب ٹھہرے
جن کا قبضہ ہے معیشت پہ ، صحافت ان کی
ہیں وہی لوگ تو دنیا میں مہذّب ٹھہرے
طارقؔ اس بات کی اب کس کو سمجھ آتی ہے
چور کو چور کہا جس نے ، محارب ٹھہرے

0
13