جس کی نگاہیں تجھ پہ ہیں، اُس کو جدا سمجھا نہ کر
جس سے محبت تجھ کو ہے اُس کو جدا سمجھا نہ کر
جب حسن جلوہ گر ہوا، تب عشق بھی ظاہر ہوا
خود حسن ہے، خود عشق ہے، اِن کو جدا سمجھا نہ کر
"میں اور تو" کی دنیا میں، اک وہ بھی ہے، بس وہ ہی ہے
وہ تجھ میں ہے، وہ مجھ میں ہے، اُس کو وَرا سمجھا نہ کر
وہ ایک ہے، ہاں ایک ہے، سب ایک ہے، بس ایک ہے
جب اصل سب کی ایک ہے، غیرِ خدا سمجھا نہ کر
پڑھ لے کتابِ نفس کو، کر لے ملامت نفس کو
خود کو بَری سمجھا نہ کر، کوئی بُرا سمجھا نہ کر

0
3
28
جناب اگر یہ غزل ہے تو زرا روشنی ڈالیں گے کہ اس کا قافیہ کیا ہے اور ردیف کیا ہے ؟
شکریہ

محترم ارشد صاحب: اصلاح کیلیے شکریہ

من نہ دانم فاعلات فاعلات
شعر می گویم بہ از آبِ حیات
قافیہ می رفتم و دلدار من
گویدم مندیش بجز دیدار من

0
جناب میں نے کوئی اصلاح نہیں کی میں نے تو ایک سوال پوچھا تھا
آپ جسے غزل کہہ رہے ہیں اس میں نہ قافیہ کا خیال ہے نہ ردیف کا -
ایسی شاعری آپ اپنی ڈائری کی حد تک تو ضرور کرسکتے مگر جب آپ اسے سب کے سامنے پیش کر رہے ہیں تو
پھر ایسی تاویلات اسے شاعری نہیں بنا سکتیں
مگر خیر یہاں اکثر لوگوں کا یہی حال ہے
پوچھا میں نے اس لیے تھا کہ شائد میں ہی کچھ کم علم رہ گیا ہوں -

0