یہ سوچا تھا تو آئے تو تجھے سینے لگاؤں گا
کہ بیتے رات دن کیسے تجھے سب کچھ بتاؤں گا
یہ سوچا تھا کہ تیری جھیل سی آنکھوں میں ڈوبوں گا
تری نظریں اتاروں گا تری زلفیں سنواروں گا
یہ سوچا تھا ذرا بیٹھیں گے ہم یہ بھول کر دنیا
پھر آہستہ سے میری داستان دل سناؤں گا
یہ سوچا تھا کہ ساری چاہتیں تجھ پر لٹاؤں گا
یہ سوچا تھا تجھے جاناں میں پلکوں پر بٹھاؤں گا
یہ سوچا تھا تھکن سے چور ہوکر جب تو سو جائے
چھڑک کر گال پر پانی محبت سے جگاؤں گا
یہ سوچا تھا کہ سردی ہو یا گرمی ہو کہ بارش ہو
تجھے موسم مطابق سارے کپڑے میں دلاؤں گا
یہ سوچا تھا اندھیرا ہو تو بولے روشنی کر دو
خوشی سے میں تری خاطر مرا دل بھی جلاؤں گا
یہ سوچا تھا الجھ جائیں جو تیرے بال ریشم سے
ترے کانوں سے بالوں کو ذرا پیچھے ہٹاوں گا
یہ سوچا تھا ترے ہمراہ پیارا گھر بساؤں گا
یہ سوچا تھا ترے ہمراہ اک دنیا بناؤں گا
یہ سوچا تھا کہ تیرے سارے نکھرے میں اٹھاؤں گا
مری اس خام محفل کو میں تجھ سے ہی سجاؤں گا
یہ سوچا تھا مرے ہاتھوں میں تیرے ہاتھ ہوں اور پھر
غزل تازہ ترے کانوں میں جاناں گنگناؤں گا
مگر تجھ کو محبت یہ مری بالکل نہ راس آئی
لہذا اب تجھے یوں ٹوٹ کر جاناں نہ چاہوں گا
یہ سوچا تھا وہ سوچا تھا مگر کیا ہو گیا کیا سے
مری جاں اب سے میں تجھ کو نہ بالکل بھی ستاؤں گا
میں نازاں ہوں مرے کردار پر اتنا کہ تم عاثِرؔ️
بھلانے کی کرو کوشش میں پھر بھی یاد آؤں گا

67