وہ وفائیں مری آزماتے رہے
ہم بھی دانستہ ہر زخم کھاتے رہے
مَیں ادھر قصۂ غم سناتا رہا
وہ اُدھر زیرِ لب مسکراتے رہے
ہم تو اپنی وفاؤں پہ نازاں رہے
وہ بھی اپنی جفائیں نبھاتے رہے
جب جواباً کوئی بات نہ بن سکی
تو بنا کچھ کہے گنگناتے رہے
تازہ زخموں کا ان سے گلہ کیا کریں
وہ پرانے پہ بھی حظ اُٹھاتے رہے
غیروں سے دوستی مجھ سے بھی پیار ہے
ہر دو اطراف پر ان کے ناتے رہے
کوئی ثانی محمّد رفیع کا نہیں
ان گنت آچُکے آ کے جاتے رہے
ناخدا کے بنا واللہ ساحل نہیں
گرچہ سارے ہی چپّو چلاتے رہے
جو چلا ہی گیا پھر نہیں آئے گا
سارے روتے رہے بلبلاتے رہے
کیا عجب حادثہ ہے مرے دوستو
نچلے طبقے کو سارے دباتے رہے
بھاری پتھّر تھا خواجہ نہیں اُٹھ سکا
سب اٹھاتے اٹھا کے گراتے رہے

0
134