لب پر جو نام آیا آقا کریم کا
احسان ہے گراں یہ ربِ رحیم کا
آئے نبی جہاں میں مانند لعلِ ناب
رتبہ کجا ہے ان میں درِ یتیم کا
میرا خیال بھی ہے بطحا کی سیر ہیں
شاید پیام لایا جھونکا نسیم کا
اپنی نظر میں کوئی منظر کہاں جچے
یہ منتظر ہے ہمدم خلقِ عظیم کا
کوئی سخی کے درجے کیسے بیاں کرے
مہمان ہے وہ یکتا مولا کریم کا
قیدِ زماں مکاں کے قیدی نہیں ہیں وہ
رتبہ نہاں خرد سے ہے شانِ میم کا
محمود درجہ ان کا اعلیٰ خدا کے بعد
ایقان بھی ہے گہنہ عقلِ سلیم کا

32