محمد جان عالم ہیں کوئی جانے تو کیا جانے
حقیقت ہے ترا رتبہ فقط تیرا خدا جانے
ترے رتبے کی حد بندی پہ بہتر ہے سکوتِ لب
وہ عبدِ خاص ہیں رب کے خدا سے نہ جدا جانے
خدا سے مانگتا ہوں میں محمد کے وسیلے سے
ملے گا کب ثمر اس کا خدا جانے دعا جانے
شبِ معراج خالق سے ہوئیں جو راز کی باتیں
کیا مانگا دیا کیا یہ خدا و مصطفیٰ جانے
یوں بولے طائرِ سدرہ مری تو حد یہاں تک ہے
ترا رتبہ ہے لا محدود کوئی نہ انتہا جانے
عتیق اپنے نبی کی تو ثنا کا رکھ عمل جاری
وہ مقبولِ جہاں ہو گی نبی جانے ثنا جانے

0
13
86
پیر صاحب - چونکہ آپ نے اس پر برائے اصلاح لکھ رکھا ہے اس لیئے پھر عرض کروں گا کہ بغیر زباں سیکھے نعت لکھنا مجھے نہیں پتا کہ احسن عمل ہے یا نہیں -
تقریبا ہر شعر میں زبان و بیان کی غلطیاں ہیں -

0
میرا مشورہ ہے کہ شاعری کرنے کے لیئے پہلے کوئی استاد ڈھونڈھ لیں اور پھر اپنے کلام کی اصلاح کروا لیا کریں اس کے بعد پیش کیا کریں -

0
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جی محترم اسی لیے اصلاح کا لکھا ہے تو برائے کرم آپ بہت اچھی رہنمائی کرتے ہیں کرتے رہیں حوصلہ شکنی سے انسان کام نہیں کر سکتا حوصلہ افزائی ہونی چاہئے تھوڑی بہت غلطی نظر ائے اس کو پوائنٹ اؤٹ کر دیں اللہ اپ کو سلامت رکھے

0
الحمدللہ میں بھی اس سے بالکل باخبر تھا وہ کچھ مشکل اس طرح کا تھا کہ میں ذہن پورا پختہ خیال نہیں بن رہا تھا اس لیے براے اصلاح لکھ دیا ہے

0
حضرت میں حوصلہ شکنی نہیں کر رہا مگر اس طرح میں کسی کو کب تک اصلاح دے سکتا ہوں ؟

یہاں آپ کا ہی نہیں زیادہ تر لکھنے والوں کا یہی حال ہے - اور زیادہ تر میرے کچھ لکھنے پہ برا ہی مان جاتے ہیں - مگر میری نظر میں سیکھنے کے لیئے مشقِ سخن ضرور کرنی چاہیئے مگر اس کے لیئے نعت کو تختہ مشق بنانا ہر گز درست نہیں ہے - آپ خود سوچیں جو لوگ غلط سلط نعت لکھ رہے ہیں کیا یہ بے ادبی شمار نہیں ہوگی -
زبان پر پہلے گرفت مضبوط ہونی چایئئے کچھ بھی لکھنے اور خاص طور پہ نعت لکھنے سے پہلے -



چلیئے میں آپ کی اس نعت پہ تبصرہ کر دیتا ہوں

محمد جان عالم ہیں کوئی جانے تو کیا جانے
حقیقت ہے ترا رتبہ فقط تیرا خدا جانے
--- پہلا مصرع کسی کو مخاطب نہیں کر رہا تو آپ دوسرے مصرعے میں ترا نہیں لکھ سکتے الا یہ کہ اوپر بھی کوئی حرفِِ ضمیر ہوتا -

ترے رتبے کی حد بندی پہ بہتر ہے سکوتِ لب
وہ عبدِ خاص ہیں رب کے خدا سے نہ جدا جانے

-- حد بندی اردو میں ایک منفی اصطلاح ہے - آپ کہنا چاہ رہے ہیں ترے رتبے کی حدودں پر کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا - مگر آپ کہہ رہے ہیں ترے رتبے کی ھد بندی کر دی گئی ہے - گویا اس خاص حد سے زیادہ نہیں ہو سکتا- خود ہی سوچیئے آپ زبان کی لا علمی کی وجہ سے کیا کہہ رہے ہیں - تو آپ کے خیال میں یہ جائز ہے ؟
پھر دوسرا مصرع بے وزن ہے - آپ کے پاس جگہ دو حرفی ہے آپ اسے ایک حرفی "نہ" نہیں لکھ سکتے -
اور "نا" لکھنے کا مقام ہی نہیں تو شعر ہی غلط ہو گیا -

شبِ معراج خالق سے ہوئیں جو راز کی باتیں
کیا مانگا دیا کیا یہ خدا و مصطفیٰ جانے
-- "کیا مانگا" میں نے آپ کو پہلے بھی سمجھایا تھا کہ عروض کی سائٹ اردو زبان جانتی نہیں ہے - یہ صرف آپ کے لکھے کو اس ہجے پہ باندھتی ہے جو اس کو مل سکے - آپ کو لکھنا تھا "کیا" یعنی سوالیہ - سائٹ نے باندھا ہے "کی یا" یعنی کر دیا - آپ کو خود بطور شاعر یہ دیکھنا ہوتا ہے - یہ شعر ہئ غلط ہو گیا -

یوں بولے طائرِ سدرہ مری تو حد یہاں تک ہے
ترا رتبہ ہے لا محدود کوئی نہ انتہا جانے
-- یہاں بھی "نہ" کی جگہ نہیں ہے - مصرعہ بے وزن ہے -

اب میں آپ کو آئندہ یہی باتیں نہیں سمجھاؤں گا آپ کی مرضی جو چاہے لکھتے رہیں -

0
جی بہت بہت مشکور ہوں میں نے برا نہیں مانا

0


محمد جان عالم تو کوئی جانے تو کیا جانے
حقیقت ہے ترا رتبہ فقط تیرا خدا جانے
حبیبِ کبریا کو کل کا مالک مانتا ہوں میں
محب محبوب کو آپس میں کوئی نے جدا جانے
محمد کے وسیلے سے دعائیں مانگنے والو
یقیں کامل رکھو ہر دم خدا جانے دعا جانے
شبِ معراج امت کے لیے جو بھی ہؤے وعدے
یہ ہے اک راز سربستہ نبی جانے خدا جانے
عتیق اپنے نبی کی نعت کا فن جاں سے پیارا ہے
زمانہ چاہے فن میرا بھلا جانے برا جانے

0
محترم خود اصلاح کی ہے نظر فرمادیں

0
پہلے میرے کلام میں بے بہا عیوب تھے میں اچھی طرح با خبر تھا لیکن اگر آپ توجہ نہ دلاتے تو ہوسکتا تھا کہ میں اسے فائنل کر دیتا

0
کیونکہ میں اپنے فہم میں سمجھ رہا تھا کہ بات کی سمجھ تو آرہی ہے کہ شاعر کیا کہا بارہا ہے

0
محمد جان عالم تو کوئی جانے تو کیا جانے
حقیقت ہے ترا رتبہ فقط تیرا خدا جانے
-- یہ مطلع اب صحیح ہوگیا مگر میری دانست میں اس طرح نبی کا مخاطب کرنا سوئے ادب ہے -
گویا آپ نبی کو مخاطب کر کہ کہہ رہے ہیں کہ اے محمد تُو جانِ عالم ہے - آپ کو صحیح لگتا ہے تو آپ کی مرضی - میں ہوتا تو اس طرح لکھتا :
محمد جان عالم ہیں کوئی جانے تو کیا جانے
حقیقت ہے کہ یہ رتبہ فقط ان کا خدا جانے

حبیبِ کبریا کو کل کا مالک مانتا ہوں میں
محب محبوب کو آپس میں کوئی نے جدا جانے
"نے" نہیں کی جگہ ایک زمانے سے متروک ہے - اب استعمال نہیں کیا جاسکتا - اس سے تو بہتر ہے آپ اس کب کر دیں
محب محبوب کو آپس میں کوئی کب جدا جانے

محمد کے وسیلے سے دعائیں مانگنے والو
یقیں کامل رکھو ہر دم خدا جانے دعا جانے
== یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کسی چیز پہ یقین کامل کا کہتا ہیں تو وہ ایک معین چیز ہوتی ہے مگر آپ آگے ایک ایسی بات کہہ رہے ہیں جو کہ خود کوئی متعین نہیں یعنی یہ یا یہ (خدا یا دعا) - تو یہ جملہ فصاحت کے خلاف ہو گیا - اس سے بہتر تو کچھ اس طرح کی بات ہوتی
"سکونِ دل رہے حاصل، خدا جانے دعا جانے"

شبِ معراج امت کے لیے جو بھی ہؤے وعدے
یہ ہے اک راز سربستہ نبی جانے خدا جانے
== یہ کہ بجاے اسے "وہ" ہونا چاہییے

الله کریم آپ کو سلامت رکھے جی بہت شکریہ اچھی رہنمائی فرمائی ہے آپ نے

0