خدا نے تجھ کو عطا کتنی نعمتیں کی ہیں
کہ اپنے بندے سے بے حد محبّتیں کی ہیں
میں سوچتا ہوں سبب اس کا ہو گا کچھ آخر
کہ اس نے مانگے بنا ہی تو رحمتیں کی ہیں
مری حقیر سی کوشش کو بھی نوازا ہے
معاف کر کے خطائیں عنایتیں کی ہیں
قدم قدم پہ مجھے راستہ دکھایا ہے
جہاں پہ بھول گیا ہوں ہدایتیں کی ہیں
دلوں میں اوروں کے ڈالا مری محبّت کو
مرے نصیب میں ایسے بھی الفتیں کی ہیں
کبھی جو نفرتوں نے دل میں سر اٹھایا ہے
تو اس نے صاف دلوں سے کدورتیں کی ہیں
دلوں میں تو نے ہی احساس یہ جگایا تھا
یہ والدین نے مجھ پر جو شفقتیں کی ہیں
یہی ہے کام فرشتوں کا سو وہ کرتے ہیں
میں کیسے ان سے کہوں کیوں شکایتیں کی ہیں
کہیں جو آئیں کبھی آزمائشیں مجھ پر
مرے لئے سبھی آساں مصیبتیں کی ہیں
کیا ہے صرفِ نظر میری لغزشوں سے بھی
قبول اس نے جو اکثر عبادتیں کی ہیں
ہے طارق اس کی محبت کا یہ بھی اک انداز
تبھی تو اجر کا باعث صعوبتیں کی ہیں

0
11