میں خزاں میں بہار ڈھونڈتا ہوں
ہجر میں اپنا یار ڈھونڈتا ہوں
مجھ کو تو ایسا صدمہ ہے کہ تجھے
ایک پل میں سو بار ڈھونڈتا ہوں
جب تو موجود ہی نہیں کہیں پر
تو کیا تجھ کو بے کار ڈھونڈتا ہوں
شہرِ آشوب میں میں تو ابھی تک
وہ دلِ داغ دار ڈھونڈتا ہوں
او میرے دوست تو کیا ڈھونڈتا ہے
میں تو دل کا قرار ڈھونڈتا ہوں
ڈِگریاں لے کے تیرے شہر میں اب
کب سے میں روز گار ڈھونڈتا ہوں
جب کھو جاتا ہوں خود سے میں کبھی تو
خود کو میں کوئے یار ڈھونڈتا ہوں

0
92