نکلے تھے ڈھونڈنے جسے وہ بھی ملا نہیں
واپس پلٹ ہی جائیں مگر در کھلا نہیں
مانو برا نہ بات کا ہے یہ مثال اک
ہو مہرباں زمیں پہ جو اس کو فنا نہیں
دنیا کی بھیڑ میں ہیں کئی راستے مگر
اے چشم پر ملال ، بچا حوصلہ نہیں
ہے حرص سی لگی دلوں کو اک فضول سی
مانگو اگر خدا سے تو ملتا ہے کیا نہیں
ہر گام ہم پہ آئے ہیں کچھ ایسے مرحلے
گھر کو جلائیں اپنے کہ گھر میں دیا نہیں
مطلب پسند تجھ سے عجب سا ہے واسطہ
یادوں کا رابطہ ہے مگر رابطہ نہیں
ہے یہ عذاب جان کا آنکھوں کی مے ملی
شاہد گلی میں تیری بھی کیا مے کدہ نہیں

0
40