کبھی جس کو وفا کی انتہا کہا گیا ہو |
اُسے ہی بعد میں ہر اک خطا کہا گیا ہو |
جو پل ہونٹوں پہ رک کر سانس لیتے تھے کبھی |
وہ پل بھی آج اشکوں کی صدا کہا گیا ہو |
محبت کی زباں میں خامشی بھی بولتی تھی |
مگر پھر اس سکوت کو جفا کہا گیا ہو |
وہی نظریں جو ہر لمحہ عبادت سی لگیں |
اب ان کو وقت کا کھیلِ سزا کہا گیا ہو |
بنے تھے خواب جو دل کی دُعا کے سلسلے میں |
انہی کو چُپ رہیں تو بھی دعا کہا گیا ہو |
حیدرؔ وہ محفل جس نے ٹھکرایا تجھ کو |
بعد میں تجھ پہ وہی دعویٰ وفا کہا گیا ہو |
معلومات