مسرور سبھی تیرے ، انداز ہیں شاہانہ |
مسکینی طبیعت میں ، فطرت ہے امیرانہ |
تُو امن کا پیغمبر ، تجھ سے ہی تو پہنچا ہے |
اللہ کا ، دنیا کو پیغام دلیرانہ |
ہر لفظ ترے لب پر ، ہے گوہرِ یک دانہ |
کرتا ہے دلوں پر اک تاثیر جدا گانہ |
صحبت میں تری رہ کر دل پاک ہوں ویسے بھی |
پھر تیری نصیحت کا انداز حکیمانہ |
دل تیری محبّت میں دیوانے ہوئے ایسے |
دیکھے ہیں جو آنکھوں سے اخلاق کریمانہ |
یہ حسن کا جلوہ ہے یا کوئی کرامت ہے |
ہر اک تری چاہت میں کیسا ہوا دیوانہ |
ہے سر پہ ترے جب سے دستار خلافت کی |
تُو شمع ہے ہر دل کی ، ہر دل ترا پروانہ |
رہتا ہے کھلا تیرا مے خانہ ، پئیں سب ہی |
مجھ پر بھی نظر ساقی ، ہے عرضِ فقیرانہ |
کم ظرف ہوں ، محفل میں کیسے تجھے یہ کہہ دوں |
ڈر ہے کہ نہ رہ جائے ، خالی مرا پیمانہ |
ہم تیری اطاعت میں زینے سبھی طے کر لیں |
ایسے نہ چلیں رستہ، منزل سے ہوں بیگانہ |
بیعت میں تری آئے، سر آنکھوں پہ رکھتے ہیں |
ہم تک جو پہنچتے ہیں ارشاد ، مسیحانہ |
تو نبض شناس ایسا نائب ہے مسیحا کا |
پائی ہے شفا اس نے جس نے تجھے پہچانا |
ہو عمرِ خضر ایسی فعّال عطا تجھ کو |
ہو جائیں سبھی حاصل مقصد ترے تابانہ |
آئیں وہ نظر آنکھیں جو اشک بہاتی ہیں |
مشکل ہے محبّت کے آثار بتا پانا |
اقرار محبّت کا کرتے ہیں وہ مستی میں |
قدرت نے جنہیں بخشی ، ہے جُراَتِ رندانہ |
مجھ پر بھی نظر کر دے ، ہو جائے سپھل جیون |
اک تیری محبّت میں طارقؔ بھی ہے مستانہ |
معلومات