سب کو کب ہانکا جاتا ہے صاحب ایک ہی سانٹے سے
تبدیلی ہوتی ہے ان میں ڈھونڈیں لوگ جو چھانٹے سے
کچھ اصلاح کی نیّت سے کہہ دو تو غصّہ کر جائیں
سنتے کب ہیں پیار سے وہ ناراض ہوں پر وہ ڈانٹے سے
ان کو بولو کر کے عمل تعلیم پہ خود بھی دکھلائیں
دوجا گال کریں نا آگے ڈر گئے ایک پہ چانٹے سے
رختِ سفر باندھا ہے نکلے گھر سے اور اب ڈرتے ہو
پھول کی چاہت میں نکلے ہو ڈرنا کیا پھر کانٹے سے
طارق شوق سے پھیلاؤ دنیا میں جو کچھ سیکھا ہے
علم کی دولت ایسی ہے جو ختم نہ ہو گی بانٹے سے

0
17