| کئی سچ ہیں ایسے جو میں جانتا ہوں |
| مگر خامشی کو بڑا مانتا ہوں |
| اگرچہ مجھے کچھ نہ اپنی خبر ہے |
| پرائے سبھی لہجے پہچانتا ہوں |
| خیالوں کی سِل پر میں حرفوں کو پیسوں |
| پھر اس دھول سے میں سُخن چھانتا ہوں |
| مرے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے |
| میں سوغاتِ حرف و قلم دان تا ہوں |
| نئی روز گرتی ہے دیوار ان کی |
| پرانے روابط کو گردانتا ہوں |
| میں طے کر ہی لیتا ہوں مشکل مراحل |
| میں کر کے ہی رہتا ہوں جو ٹھانتا ہوں |
معلومات