کئی سچ ہیں ایسے جو میں جانتا ہوں
مگر خامشی کو بڑا مانتا ہوں
اگرچہ مجھے کچھ نہ اپنی خبر ہے
پرائے سبھی لہجے پہچانتا ہوں
خیالوں کی سِل پر میں حرفوں کو پیسوں
پھر اس دھول سے میں سُخن چھانتا ہوں
مرے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے
میں سوغاتِ حرف و قلم دان تا ہوں
نئی روز گرتی ہے دیوار ان کی
پرانے روابط کو گردانتا ہوں
میں طے کر ہی لیتا ہوں مشکل مراحل
میں کر کے ہی رہتا ہوں جو ٹھانتا ہوں

0
141