شبِ ہجراں میں جلا کر یہ جگر، رقصاں رہ |
خونِ دل سے تو سجا ایک سحر، رقصاں رہ |
آگ ہے چار سُو اور خطرہ ہر اک لمحہ ہے |
ہر قدم تیز ہو اور تیز نظر، رقصاں رہ |
راہ دشوار سہی، خار سے پُر ہے منزل |
سنگ ریزے ہیں بہت جانِ سفر رقصاں رہ |
ذکرِ محبوب ہو لب پر تو رہیں کیف و طرب |
روح میں بھر لے وہی سوزِ اثر، رقصاں رہ |
خاک کے دشت میں بھی چاند اُتر سکتا ہے |
آسمانوں پہ ہو بس تیری نظر، رقصاں رہ |
پاؤں زنجیر میں ہیں، جسم ہے صدموں کا اسیر |
ایسے عالَم میں بھی رکھ دل کی خبر، رقصاں رہ |
آخری وقت میں بھی خود پہ ستم کرتا جا |
نام لے اُن کا اُسی نام پہ مر رقصاں رہ |
افشیںؔ اب رقص بنا نالہ و فریاد کہاں |
زخم کو دے کے نیا حسنِ ہُنر، رقصاں رہ |
معلومات