| زنگ جو دل پہ گناہوں کا لگا لیتے ہیں |
| حزن شبیر میں آنکھوں کو بہا دیتے ہیں |
| لے کے آغوش میں اصغر کو یہ بولے شبیر |
| خوابِ نانا پہ ذبیح اپنا کٹا دیتے ہیں |
| آلِ احمد کو نہ آزماؤ زمانے والو |
| بھوکے رہ کر بھی یہ اوروں کو کھلا دیتے ہیں |
| تھام کر بولی سکینہ جمِ آبِ حیواں |
| لاؤ اصغر ہے کہاں اس کو پلا دیتے ہیں |
| کیا ہراؤ گے لعینوں ہمیں بولیں زینب |
| ؔ ہم تو خطبے سے ہی دربار ہلا دیتے ہیں |
| مانگو ان سے تم اے دھتکارے ہوو دنیا کے |
| جو ہے کھوٹا اسے سادات کھرا دیتے ہیں |
| ہیں سخی آلِ نبی اتنے نہ بابت پوچھو |
| کہ فرشتے پسِ دیوار صدا دیتے ہیں |
| لا سکے جو نہ سکینہ کے لیے آبِ حیواں |
| بولے عباس کہ بازو ہی کٹا دیتے ہیں |
| کیجیے ہم کو عطا گوہرِ علم و حکمت |
| آؤ دروازۂ حکمت پہ صدا دیتے ہیں |
معلومات