اپنا تو مدعا تُم ہو
تُمہارا مدعا کون جانے
زخمِ دل سے ٹپکتا ہے جو
لہو ہے یا سرور کون جانے
ادھ کُھلی آنکھوں نے دہلیز چُومی
گُلاب ہونٹوں کے انگاروں کی
شب بُجھی رفتہ رفتہ
کیونکر ہے بُجھی کون جانے
فضا آلودہ ہے دُھند سے
ارد گرد کُچھ دکھتا نہیں
اک وجود اور اُسکی دلرُبائی
کیسے دِکھی ہے کون جانے
تُجھ سا کوئی نہیں
کوئی تُجھ سا بھی کیوں ہوتا
روشنی کے اس بیہمانہ قطر میں
اک دھبہ کہاں چُھپتا ہے کون جانے
داورِ جہاں بتا تو سہی
کہاں دفن ہے جُنوں میرا
کس وحشت سے جُڑا وجود میرا
کس دشت کا صلہ ہوں کون جانے
اک ہیولہ پھرتا ہے چار سُو
تھام کر میری گردشِ نبض
ڈھال دیتا ہے صفحوں پہ رقص
لہُو میرا نچوڑ کر، کون جانے
نکون جانے کہ ماہِ کامل میں
پھڑپھڑاتا ہے سینے میں وحشی کوئی
سُلگتی چتا ہے جنون و خرد کی
اُس پہ بڑھتی دیوانگی کون جانے
پسِ احساس اک شکستہ پائی
بکھرتی سانسوں میں ڈھلی جاتی ہے
فگار پوروں سے چُنا ہے میں نے
کرچیوں میں وجُود اپنا کون جانے
فیصل ملک

0
101