| زباں سے کہہ دیا جو شکل تیری پیاری لگی |
| تجھے یہ بات مگر کیوں بری ہماری لگی |
| دیئے سبھی نے کچوکے کِسے کہیں کہ تری |
| وہ ضربِ کج نظری دل پہ کتنی کاری لگی |
| جو سب نے کی تری توصیف ہم نے کی تو بتا |
| بری لگی تو تجھے کیوں بری ہماری لگی |
| بچھڑ گئے تھے تو ہر دن تھا رات سا، جو ملے |
| دنوں سے بھی کہیں روشن وہ رات ساری لگی |
| نہیں ہے ربط دلوں کا اگر دلوں سے تو پھر |
| بچھڑ کے کیوں ترے دل کو بھی بے قراری لگی |
| مہک رہی ہے چمن سی جو صحنِ دل میں کبھی |
| تمہارے پیار کے پھولوں کی اک کیاری لگی |
| وہ ہنس دیئے جو سنا مدعا وہ ہلکی ہنسی |
| کوئی بتائے انھیں دل پہ کتنی بھاری لگی |
| درست، ایک سے بڑھ کر تھا اک حسین، مگر |
| غلط، جہاں میں کوئی شکل تجھ سے پیاری لگی |
| جو کہہ رہی تھی نہیں آپ ہی جہاں میں فقط |
| وہی نگاہ حبیب آج ہاری ہاری لگی |
معلومات