آنکھوں میں جو نمی تھی اسے جان نا سکا
کیا چھپ رہا تھا مجھ سے یہ پہچان نا سکا
غم ہے خوشی ہے خواب ہے کچھ بھی عیاں نا تھا
اس نے کہا کہ خوش میں کر ایقان نا سکا
اپنا کہا جو تم نے تو دل تھا ملال میں
سب نے کہا کہ دھوکہ ہے میں مان نا سکا
کہتا پھرے ہے لوگوں سے مجھ میں وفا نہیں
کہتا رہا کسی کے بھی بھر کان نا سکا
فرعون نے خدائی کا دعویٰ تو کر دیا
دعویٰ جو کر دیا تو لا برہان نا سکا
کرتا رہا وہ لوگوں سے باتیں جلال کی
پڑھ لکھ گیا مگر وہ بن انسان نا سکا
از قلم: ثاقب علی جلال

0
54