ستم کی تیغ پہ تازہ اڑان جاری ہے
وہ دیکھ نوکِ سناں پر قران جاری ہے
تُو نے یہ سمجھا رکی ہے ازان اکبر کی
ہر ایک ماتمی دل میں ازان جاری ہے
ابھی بھی قتل ہے جاری علی ولی کا سنو
ستم کی تیغ وہ تیر و کمان جاری ہے
صفِ عزا پہ کھڑے ہیں یہ خلد کے باسی
صدائے ہل من پر سب کی جان جاری ہے
ابھی بھی لگتے ہیں پتھر وہ بی بی زینب کو
نگاہِ قائمِ حق سے بیان جاری ہے
مدینے والے ہیں اب بھی وہ در بدر شفقت
آلِ رسول کی ہجرت مکان جاری ہے

188