کہہ دیا ہم نے کبھی اور کبھی شرماتے رہے
اور ہنس ہنس کے کبھی پھیپھڑے گرماتے رہے
شعر گوئی میں کبھی قبض رہا غالبؔ کو
اور کبھی یوں بھی ہُوا خط میں جلاب آتے رہے

0
205