مجھ کو جب آگ لگی تھی تو ہوا دی اس نے
راہ جو قبر کو آتی تھی مٹا دی اس نے
اس کی عزت کے لیے خون کی ہولی کھیلی
بیچ بازار میں دستار گرا دی اس نے
میں تو پلکوں سے اٹھاتا رہا کانٹے ہر دم
ایک کانٹوں بھری یہ تار بچھا دی اس نے
میں نے پوچھا کہ بچھڑنے کا ارادہ تو نہیں
ایک ہی پل میں یہ دیوار اٹھا دی اس نے
موت سے کھیل کے پہنچا جو وہاں پر شاہدؔ
اس سے پہلے ہی وفا مجھ سے بھلا دی اس نے

0
60