مجھ کو جب آگ لگی تھی تو ہوا دی اس نے |
راہ جو قبر کو آتی تھی مٹا دی اس نے |
اس کی عزت کے لیے خون کی ہولی کھیلی |
بیچ بازار میں دستار گرا دی اس نے |
میں تو پلکوں سے اٹھاتا رہا کانٹے ہر دم |
ایک کانٹوں بھری یہ تار بچھا دی اس نے |
میں نے پوچھا کہ بچھڑنے کا ارادہ تو نہیں |
ایک ہی پل میں یہ دیوار اٹھا دی اس نے |
موت سے کھیل کے پہنچا جو وہاں پر شاہدؔ |
اس سے پہلے ہی وفا مجھ سے بھلا دی اس نے |
معلومات