نہ گھائل ہوں نہ زخمِ سینہ کاری
بس آشوبِ جہاں نے مت ہے ماری
وہ کیسے پھرتے ہیں سینہ پھلائے
کوئی نالش نہ حدِّ فوجداری
مسائل نے جکڑ رکھّا ہے سب کو
مگر اک کوششِ پیہم ہے جاری
زمیں کا سینہ شق ہونے لگا ہے
بہت بھاری ہے انساں کی سواری
اُدھر مسجد ادھر میخانہ واعظ
مسائل دونوں جانب ضرب کاری
جلا کے سرخ رنگ کی موم بتّی
کسی گاہک کی راہ تکتی ہے ناری
مجھے نقصاں نہیں بارش سے کوئی
کوئی گھر ہے نہ دروازہ نہ باری
غریبی ختم ہو تو کیسے امید
امیر ہونا ہو جن کو شرمساری

55