| اک تلخ حقیقت تھی بھلاتا بھی نہیں ہوں |
| پھر دیپ محبت کا جلاتا بھی نہیں ہوں |
| اس وصل کی یادیں بھی ستاتی ہیں اگرچہ |
| یادوں سے تری دور میں جاتا بھی نہیں ہوں |
| اب دور ترے وصل کا آتا بھی نہیں ہے |
| اور ہجر کا میں ساز بجاتا بھی نہیں ہوں |
| کیوں تجھ سے تکلم کو ترستی ہے سماعت |
| کیوں بول محبت کے سناتا بھی نہیں ہوں |
| ہر ظلم محبت میں روا رکھا ہے مجھ پر |
| اک آنکھ میں کیوں اسکو یوں بھاتا بھی نہیں ہوں |
| یادوں میں سلگتا ہوں شب و روز میں تیری |
| پر یاد تری دل سے مٹاتا بھی نہیں ہوں |
| جل بھی رہا ہوں عشق کی اس آگ میں تیرے |
| اس آگ کو میں دل سے بجھاتا بھی نہیں ہوں |
| دل یاد ترے نقش بھی رکھتا ہے مسلسل |
| تصویر تری دل میں بناتا بھی نہیں ہوں |
| ناراضگی تیری تو ستائے ہے اگرچہ |
| میں تجھ کو کبھی آ کے مناتا بھی نہیں ہوں |
| بےچین ہوں میں حال عجب ہے مرے دل کا |
| ظاہر بھی نہ ہو پائے چھپاتا بھی نہیں ہوں |
| دل چاہتا ہے کھول کے دل رکھ دوں ہمایوں |
| دکھ اپنے کسی کو میں بتاتا بھی نہیں ہوں |
| ہمایوں |
معلومات