یارو جینے کے لئے بس اک تلاطم چائیے |
راستہ بھی مجھ کو تھوڑا ویسے مبہم چائیے |
یہ متاعِ غم نشانِ زیست دیتا ہے مجھے |
جو غموں سے جھولی بھر دے ایسا حاتم چایئے |
بےسکونی کی وجہ ہے یہ سکونِ زندگی |
خواہشوں کا سوگ ہو مجھکو بھی ماتم چائیے |
بے ھنگم آوازیں ہیں اور سر سے بھی یہ عاری ہیں |
وجد کو جو طاری کر دے وہ ترنم چائیے |
ایک صدمہ ہو اچانک ایک بجلی گر پڑے |
بس خبر تیرے بدلنے کی تو یکدم چائیے |
ایسے لگتا ہے مجھے بے ذائقہ ہے زندگی |
مجھ کو جینا ہے تو پھر اک سوزِ پیہم چائیے |
ہو چکی ہے اب شناسا جاں مری اس درد سے |
جو بڑھا دے اس اذیت کو وہ مرہم چائیے |
یہ سکونِ زیست مجھ کو ہے سقوطِ زندگی |
مضطرب جو کر سکے وہ غم بھی تاہم چائیے |
دھیرے دھیرے طے کروں میں سب فنا کی منزلیں |
زہر جو تم مجھ کو دو وہ تھوڑا مدھم چائیے |
خودفریبی ہے یہ ساری وعدے قسمیں اور وفا |
بے وفا سا ہو جو مجھ کو ایسا جانم چائیے |
اے ہمایوں سو گیا کیوں غم کی چادر اوڑھ کر |
غم خوشی کا رشتہ پھر بھی کچھ تو باہم چائیے |
ہمایوں |
معلومات