| دل کی ویرانی میں بھی کچھ روشنی باقی تو ہے |
| گرچہ تُو موجود اب میرے قریب و پاس نہیں ہے |
| وقت کی دیوار پر تصویریں دھندلا سی گئیں |
| پھر بھی خوابوں میں تری اک خامشی باقی تو ہے |
| زندگی کی رہگزر میں اب بھی چلتے ہیں قدم |
| چاہ میں تیری مگر وہ بے خودی باقی تو ہے |
| کیسے تجھ کو بھول جائیں، حوصلہ ممکن نہیں |
| یاد کی زنجیر میں وہ بندگی باقی تو ہے |
| تو نہیں، پر ذکر تیرا ہر گھڑی آتا رہے |
| شاید اس دل میں ابھی کچھ زندگی باقی تو ہے |
| زخم دل کے زیدیؔ اب بھی چیخ اٹھتے ہیں مگر |
| آنسوؤں میں ڈھل گئی وہ عاشقی باقی تو ہے |
معلومات