ہے موسمِ فراق، علامات ہیں خراب |
کیا وجہ بے دلی ہو، وجوہات ہیں خراب |
لمحات ہیں خراب، یہ دن رات ہیں خراب |
بس اتنا جان لیجیے کہ حالات ہیں خراب |
وہ دور ہے کہ لفظِ وفا بھی ہے زیرِ رم |
لیلیٰ و قیس ہیں کہ خیالات ہیں خراب |
اُس شہرِ مست ناز کا میں حال کیا کہوں |
جذبات ہیں خراب مدارات ہیں خراب |
رہروۓ دشتِ شوق ذرا ہوش سے گزر |
اِس بستئِ سراب کے حضرات ہیں خراب |
ہاتھ اٹھتے ہیں دعا میں مگر وصلِ خوار کو |
مجھ انسِ شیخ خُو کی مناجات ہیں خراب |
وہ پاسدارِ عہدِ وفا بھی بچھڑ گیا |
اہلِ خرد کی ریت روایات ہیں خراب |
بچھڑے تو روۓ کب، دلِ خستہ سے ہنس دیے |
اس چشمِ اشک بار کے اوقات ہیں خراب |
مطلوب بوسۂِ لب و عارض ہے صدقے میں |
ہم ایسے خاکسار کی حاجات ہیں خراب |
اور یہ دلِ متاعِ فسردہ کو کیا خبر |
ہے جس فسردگی میں وہ لذّات ہیں خراب |
شورش ہے، شر ہے ، خوۓ فریب و جفا ہے زیبؔ |
دنیاۓ خار و خس کے کمالات ہیں خراب |
معلومات