یہ راحتیں مسرّتیں جو آج ہیں تو کل نہیں
یہ عارضی ہیں لذّتیں جو آج ہیں تو کل نہیں
یہ عالی شان مرتبہ یہ گاڑیوں کا کارواں
ہمیشہ کب رواں رہیں جو آج ہیں تو کل نہیں
دِکھانے ہی کی چاہتیں ضرورتوں کی دوستی
کبھی بنیں گی حسرتیں جو آج ہیں تو کل نہیں
ہے جاہ و عزّت و وقار جو ملا ہے چار دن
سبھی ہیں یہ امانتیں جو آج ہیں تو کل نہیں
یہ صحت اور سلامتی عطا ہوئی ہے اب تلک
مگر سدا کہاں رہیں جو آج ہیں تو کل نہیں
چبا رہے ہیں دانت جو دکھا رہی ہے آنکھ جو
سدا نہیں یہ نعمتیں جو آج ہیں تو کل نہیں
نظر یہ سب جو آئے تو یہ سوچتے رہا کریں
سب اس کا شکر تو کریں جو آج ہیں تو کل نہیں
ازل سے ذات ایک ہے رہے گی بس وہی سدا
خدا کے سامنے جھکیں جو آج ہیں تو کل نہیں
ہے طار ق عارضی سفر جو چل پڑے پہنچ گئے
یہاں قیام کب کریں جو آج ہیں تو کل نہیں

0
39