| اشک آنکھوں سے بہاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے |
| اپنی روداد سناتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے |
| کسی کو چھوڑ کے جاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے |
| دُور سے ہاتھ ہلاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے |
| گھر کے دروازے پہ جب ماں کو کھڑا دیکھتا ہوں |
| گاؤں سے شہر کو آتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے |
| پھر اُسے کون جلائے گا یہاں میرے بعد |
| کوئی بھی دیپ بُجھاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے |
| ہم نے اپنے بھی نشانات مٹا ڈالے ہیں |
| اِک ترا نام مٹاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے |
| حالتِ زار پہ ہنستے ہیں یہ دنیا والے |
| حال احوال بتاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے |
| مجھ کو معلوم ہے تُو شوخ کبھی آیا نہیں |
| تجھ کو آواز لگاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے |
معلومات