اشک آنکھوں سے بہاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے
اپنی روداد سناتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے
کسی کو چھوڑ کے جاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے
دُور سے ہاتھ ہلاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے
گھر کے دروازے پہ جب ماں کو کھڑا دیکھتا ہوں
گاؤں سے شہر کو آتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے
پھر اُسے کون جلائے گا یہاں میرے بعد
کوئی بھی دیپ بُجھاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے
ہم نے اپنے بھی نشانات مٹا ڈالے ہیں
اِک ترا نام مٹاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے
حالتِ زار پہ ہنستے ہیں یہ دنیا والے
حال احوال بتاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے
مجھ کو معلوم ہے تُو شوخ کبھی آیا نہیں
تجھ کو آواز لگاتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے

1
171
خوب ہے- اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

0