کسی زبان سے نامِ عدو بیاں ہو گیا
سٹک کے الٹا کہے دیتے ہیں کہ ہاں ہو گیا
کوۓ بتاں میں بہا آیا ہوں وجودِ ذات
تھی رائیگانی محبت، میں رائیگاں ہو گیا
یہ تیرے دل کے نکالے ہوؤں کا کیا گھر بار
اسیرِ غم ہیں، جدھر بیٹھے وہ مکاں ہو گیا
میں کیا بتاؤں مرے ساتھ کیا ہوا کہ کوئی
مجھے یقین دلا کے مرا گماں ہو گیا
بہت سفر کیا منزل سمجھ کے تجھ کو مگر
یہی طویل مسافت مرا زیاں ہو گیا
تری طرف سے جسے دشتِ شوق میں تھا خوف
مگر چلا تو وہی شخص کارواں ہو گیا
وہ زیبؔ؟ یعنی وہی زیبؔ؟ اور بالآخر
بس ایک نام تھا جو یادِ رفتگاں ہو گیا

0
83