زرفشاں جب خیال ہو جائے
زندگی تب نہال ہو جائے
گر پشیماں ہو یار تو بنے بات
"ہجر ٹوٹے وصال ہو جائے"
میل جزبے ہمارے کھاتے ہوں
منتہائے کمال ہو جائے
شر پسندی عروج پر پہنچے
قومیت کا زوال ہو جائے
عام فسق و فجور ہونے لگے
سخت جاں اک وبال ہو جائے
زخم ناصؔر عزیز دینے لگیں
دل کو رنج و ملال ہو جائے

0
59