صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
زندگی یُوں تمام ہوتی ہے
حسرتیں کُوچ کر گئیں دِل سے
خامُشی لب پہ عام ہوتی ہے
گو قفَس میں کسی پرندے کو
قید یاروں دوام ہوتی ہے
حال کچھ ایسا ہی ہے اپنا بھی
روح تک انہدام ہوتی ہے
بزمِ یاراں بھی اب نہیں سجتی
شام بھی غم کے نام ہوتی ہے
گھر وہ خالی مکان لگتا ہے
جس میں وحشت مدام ہوتی ہے
کیا کہوں زیدؔی ہجر میں اس کے
نیند بھی اب حرام ہوتی ہے۔

0
132