ڈر لگے اب نئے زمانے سے
لوگ رہتے ہیں کچھ دِوانے سے
ہر سُو چھائی بہار ہے کیسی
"کِھل اٹھے پھول تیرے آنے سے"
دور تک شائبہ نہیں سچ کا
لغو جو سارے ہیں بہانے سے
ہونٹ ہی اپنے سی لے تو بہتر
جھوٹ کی داستاں سنانے سے
تن بدن میں سرور سا چھائے
روح خوش ہوتی مسکرانے سے
یار کے روٹھنے سے حیراں تھا
مل گیا چین ہے منانے سے
کھیل تو سوچے سمجھے ہیں ناصؔر
دشمنوں کے رہے نشانے سے

0
57