ایک اندر کی ہے اور ایک ہے باہر کی آنکھ |
دونوں کے ساتھ سمجھ آتی ہے منظر کی آنکھ |
حسن ہی اتنا نوازا ہے خدا نے تجھ کو |
جہاں دیکھو وہیں ہو جاتی ہے پتھر کی آنکھ |
سر میں ہوتا ہے ابھی کل کی تھکاوٹ کا بوجھ |
صبح ہوتے ہی بلا لیتی ہے دفتر کی آنکھ |
لہروں کو دیکھنے جاؤ تو دوپٹہ کر لو |
اتنی شفاف نہیں ہوتی سمندر کی آنکھ |
کوئی جو کرتا ہے ہوتا ہے وہی اس کے ساتھ |
آنکھ ہر آنکھ پہ رہتی ہے وہ اوپر کی آنکھ |
جانے کب آئے گا یہ ہاتھ ترے ہاتھوں میں |
جانے کس دور میں جاگے گی مقدر کی آنکھ |
جو مرے مصطفیٰ کی شان میں گستاخی کرے |
مار دو اس کو وہیں نوچ لو کافر کی آنکھ |
جانتی بھی ہے کہ ہر آنکھ ہے مکار مگر |
دھوکا کھا لیتی ہے ہر آنکھ سے اکثر کی آنکھ |
ورنہ فن سیکھنے میں اتنے زمانے نہ لگیں |
دیر سے پڑتی ہے شاگرد پہ رہبر کی آنکھ |
ہر گھڑی آنکھ جمائے رکھو خود پر تاکہ |
دوسروں پر نہ رہے آپ کے شوہر کی آنکھ |
آنکھ سے خواب نکال اور حقیقت کو ڈال |
تب کہیں جا کے عطا ہو گی قلندر کی آنکھ |
راستہ دیکھتی رہتی ہے زیارت کے لیے |
کاش تم کو نظر آئے دل - مضطر کی آنکھ |
ایک مدت سے کوئی کال نہیں کی تم نے |
روتی رہتی ہے مرے فون میں نمبر کی آنکھ |
آنکھ کھل جاتی ہے دنیا کی اسی روز کلیم |
بند ہو جاتی ہے جس روز سخن ور کی آنکھ |
معلومات