| کچھ سنا جائے ، کچھ کہا جائے |
| یونہی خاموش کیوں رہا جائے |
| اس کے قدموں پہ پاؤں رکھتے ہیں |
| دیکھتے ہیں کہاں شہا جائے |
| جب بھی آئے ہماری یادوں میں |
| اشک آنکھوں سے وہ بہا جائے |
| ہو جو چنگاری آگ ہو موجود |
| ابتدا ہی سے ، انتہا جائے |
| بات ہوتی ہے جب گناہوں کی |
| کیوں پسینے میں دل نہا جائے |
| دل پہ بیتی ہے عشق میں کیا کچھ |
| کیا کہا جائے یا سہا جائے |
| داستاں عشق کی کہیں سن کر |
| آسماں تک نہ قہقہہ جائے |
| لذّتِ عشق ہو بیاں کیونکر |
| طارقؔ اس کی نہ اشتہا جائے |
معلومات