کچھ سنا جائے ، کچھ کہا جائے
یونہی خاموش کیوں رہا جائے
اس کے قدموں پہ پاؤں رکھتے ہیں
دیکھتے ہیں کہاں شہا جائے
جب بھی آئے ہماری یادوں میں
اشک آنکھوں سے وہ بہا جائے
ہو جو چنگاری آگ ہو موجود
ابتدا ہی سے ، انتہا جائے
بات ہوتی ہے جب گناہوں کی
کیوں پسینے میں دل نہا جائے
دل پہ بیتی ہے عشق میں کیا کچھ
کیا کہا جائے یا سہا جائے
داستاں عشق کی کہیں سن کر
آسماں تک نہ قہقہہ جائے
لذّتِ عشق ہو بیاں کیونکر
طارقؔ اس کی نہ اشتہا جائے

0
8