یہاں غم مفت ملتے ہیں خوشی کے دام لگتے ہیں |
مری باتوں میں سچ ہے آپ کو ابہام لگتے ہیں |
محبتّ میں جنہیں دکھ جھیلنے آتے نہیں شاعر |
مجھے ہر گام ہر منزل پہ وہ ناکام لگتے ہیں |
یہ کیسی مسکراہٹ ہے کہ آنکھیں ہو گئیں پُر نم |
مجھے ایسی ہنسی میں درد کے آلام لگتے ہیں |
مقدّر پر بھروسہ ہو کبھی کینہ نہ ہو دل میں |
یہی اوصاف ہیں جو باخدا انعام لگتے ہیں |
متاعِ زر کو پانے کے لئے رشتوں کی قربانی |
یہی وہ لوگ ہیں جو حشر میں ناکام لگتے ہیں |
کہیں پر ہر کسی کی بات میں کچھ جھول ممکن ہے |
سیاستدان سر تا پا مجھے ابہام لگتے ہیں |
کبھی تو راز کھُل جائے گا تیرے قد کی قامت کا |
ابھی تو غمزہ و شوخی ادا اوہام لگتے ہیں |
ہزاروں دن کی ناکامی اور اک دن کامیابی کا |
عجب انصاف ہے تیرا نرالے کام لگتے ہیں |
چلو امید یو اے ای سے فےننڈال کی جانب |
جہاں جو بھی نظر آ جائے سب گلفام لگتے ہیں |
معلومات