مرے پاؤں نیچے کہاں اب زمیں ہے
صبح ہے کہیں رات میری کہیں ہے
گئے ہو تمہی اپنی چوکھٹ بدل کر
مرا سر جہاں تھا ابھی تک وہیں ہے
بہت ہی ہے اعلٰی یہ بندہ سیہ بخت
مگر اس کے منہ میں زباں بس نہیں ہے
نجانے کہاں ہے ابھی تو یہیں تھا
مرا دل مرے پہلو میں تو نہیں ہے
عجب کشمکش میں ہوں الجھا ہوا میں
ہے قاتل بھی وہ ,اور وہی دل نشیں ہے
خیالِ صنم اور بیٹھا ہوں کعبے
خدا ہے کہاں اور سجدہ کہیں ہے
ڈسا یوں گیا ہوں محبت کے ہاتھوں
مری جاں مجھے اب بھروسہ نہیں ہے
ہے قاتل بری اور جنازے کو بیڑی
عدالت کے منصف تجھے آفریں ہے
وہ بے درد دل میں گیا درد دے کے
مکاں کس کا تھا کون بیٹھا مکیں ہے
یقینن گلہ آج کٹنا ہمارا
تری بات پر جب کیا جو امیں ہے
پڑھی جا رہی یوں نمازِ محبت
کلیجے پہ اٹکی ہوئی آستیں ہے
نبھانے کے وعدے گو تم کر رہے ہو
مگر جاں مجھے اب بھروسہ نہیں ہے

17