| مرے حسین پہ روئے ہے آسماں لوگو |
| ہواؤں میں ہیں سکینہ کی سسکیاں لوگو |
| بے شیر ہاتھوں پہ پانی کا منتظر ہے وہاں |
| ہاں ظلمی تیر نے ماری ہے ننی جاں لوگو |
| لگا جو تیر تو منہ سے ہے نکلا دودھ فقط |
| درِ خیام پہ دیکھے ہے اس کی ماں لوگو |
| برستا ابر ہے روتا جی پیاسِ اصغر کو |
| جواں کے غم میں روتی یہ بجلیاں لوگو |
| دھنک کو دیکھا تو محسوس یہ ہوا مجھ کو |
| جواں کی مہندی کی جیسے ہیں پتیاں لوگو |
| ستارے صف میں کھڑے ہیں یوں ماتمی کی طرح |
| ہے چاند غازیِ مضطر کا نوحہ خواں لوگو |
| یہ ساہ ابر جو آتے ہیں آسماں پہ کبھی |
| جلے خیام و ردا کا ہے یہ دھواں لوگو |
| سناں لگی ہے تو بیٹے کا خون بہتا ہے |
| ہے باپ سکتے میں لگتیاں برچھیاں لوگو |
| بھرے شہر میں ہے زینب کو مارا لوگو نے |
| اب اس سے بڑھ کے ہو کیا اور امتحاں لوگو |
| کرے وہ دفن سکینہ کو کس طرح قیدی |
| لحد وہ کیسے بنائے ہے ناتواں لوگو |
| فلک پہ دیکھی ہے شفقت نے کربلا برپا |
| ہیں پرسہ دارِ ردا سب تجلیاں لوگو |
معلومات