شوق گر ہم کو ہوگا پڑھنے کا
راستہ مل ہی جائے پانے کا
سوختہ بخت کی پکار کو سن
"آسرا چھن گیا ہے جینے کا"
کیوں نہ آواز ہم اُٹھائیں اب
کیا نتیجہ ملا ہے سہنے کا
کانپی ہے دھرتی تو گناہوں سے
سپنہ ہے چاند پر بھی بسنے کا
دامنِ آس کو نہیں چھوڑے
کچھ بہانہ رہے پنپنے کا
کشت کو سبزہ زار کر دہقاں
وقت آیا ہے بیج بونے کا
شکریہ ہے بہاروں کا ناصؔر
آیا ہنگام ہجر چَھٹنے کا

0
33