بے لوث محبت کی گھنی چھاؤں میں آؤ
کیا شہر میں رکھا ہے مرے گاؤں میں آؤ
اے دھوپ کے مارو مجھے دیوار بنالو
سایوں کی طرح تم نہ مرے پاؤں میں آؤ
جانا ہے تو یادوں کے سبھی نقش مٹادو
خوابوں میں خیالوں میں نہ آشاؤں میں آؤ
گر تم یہ سمجھتے ہو بجا ہے تو بجا ہے
اغیار کی صورت میں شناساؤں میں آؤ
فطرت سے جو ملنا ہو تو شہروں سے نکل کر
جنگل میں بیابانوں میں صحراؤں میں آؤ
کچھ اور اجل جائیں گے یادوں کے مناظر
گھنگھور برستی ہوئی برکھاؤں میں آؤ

0
74