ہر سمت جو یہ جشن کا آغاز ہوا ہے
ہم تم سے ملے ہیں تو یہ اعجاز ہوا ہے
جو میرے تخیل میں یہ ہلچل سی مچی ہے
ایسا مری دنیا میں کبھی شاذ ہوا ہے
ہے پھر سے تلاطم کا وہی عزمِ تباہی
دل اپنے سکوں سے جو دغا باز ہوا ہے
دل کھول کے میں سامنے تیرے جو رکھوں گا
اب مجھ سے مری جاں جو تو ہمراز ہوا ہے
جس دل میں نہ جاگا ہو کوئی گیت وفا کا
پرسوز کسی طور نہ وہ ساز ہوا ہے
چہرے سے عیاں آج مسرت ہے ملن کی
رخ تیرا جو اس بات پہ گلناز ہوا ہے
یہ سحر ہے تیرا کہ ہوا سرخرو اب میں
یہ وقت جو میرا یوں ہم آواز ہوا ہے
یہ بات ہمایوں کو تو ہے اب سمجھ آئی
جو نام مرا اب نظر انداز ہوا ہے
ہمایوں

0
1