| ہم جو کہہ دیں اسے پھر بدلتے نہیں | 
| بات سے اپنی پھر ہم مُکرتے نہیں | 
| وہ جو فرقت زدہ ہوں بہلتے نہیں | 
| آئینہ سامنے ہو سنورتے نہیں | 
| جو بکھر جائیں پھر وہ سمٹتے نہیں | 
| کرچی کرچی جو ٹوٹیں وہ جڑتے نہیں | 
| ہم وہ مجذوب ہیں جن کے پاؤں کبھی | 
| آبلے پڑ بھی جائیں تو رُکتے نہیں | 
| جن کے دل میں خزاؤں کا ڈیرا ہوا | 
| ان کے موسم کبھی بھی بدلتے نہیں | 
| "جس گلی میں تیرا گھر نہ ہو بالما " | 
| اس گلی میں تو پاؤں بھی رکھتے نہیں | 
| بات دل پر نہ جب تک اثر کچھ کرے | 
| آنکھ سے اشک تب تک تو بہتے نہیں | 
 
    
معلومات