مسرت کی اس تک خبر جاتی ہے
مدینے سے جس پر نظر جاتی ہے
ہیں طالع درخشاں اسی کے ہوئے
نبی سے جسے بھی ظفر جاتی ہے
ملی کامرانی اسے ہر زماں
جو بگڑی ہے اس کی سنور جاتی ہے
جلاتا ہے جو ان کی یادوں کے دیپ
پڑی اس پہ ظلمت بکھر جاتی ہے
اگر فکر ہوتی ہے اعمال کی
نظر لطفِ جاں پر ٹھہر جاتی ہے
بنا نام نامی ذکر جب اے دل
خوشی سی دہر میں بکھر جاتی ہے
ہوا آئی بطحا سے محمود جو
بتائے نبی کو خبر جاتی ہے

77