جینے میں زمانے لگتے ہیں
نئے شہر پُرانے لگتے ہیں
مری بستی میں سے کُچھ لڑکے
سچ مُچ دیوانے لگتے ہیں
وہ دیکھ کے چاند رو دیتے ہیں
گُلوں سے شرمانے لگتے ہیں
سب کو میں ہی بُدھو لگتا ہوں
مُجھے سارے پیارے لگتے ہیں
تُم نے جُگنو دیکھے ہیں کبھی
مُجھے سارے فسانے لگتے ہیں
ماں کو کیا اچھا لگتا ہے
ابُؤ کتنے پُرانے لگتے ہیں
تب ہی یہ سمجھ میں آتا ہے
جب اپنے جنے اُکتانے لگتے ہیں
وہ خواب جو فیصل مر جائیں
وہی کیوں نظر آنے لگتے ہیں

0
142