سنگِ اتمامِ دشنام بھی ہو چکا۔۔ |
لیجے آپ کا کام بھی ہو چکا۔۔ |
شہر بھر میں مرا نام بھی ہو چکا۔۔ |
اب کہ آغاز و انجام بھی ہو چکا۔۔ |
شوق کی رہ میں ناکام بھی ہو چکا۔۔ |
اور میں بادہ آشام بھی ہو چکا۔۔ |
اب کوئی التجا ہے نہ کوئی گلہ۔۔ |
حیف اصرار و ابرام بھی ہو چکا۔۔ |
حکم تھا آپ کا جو، بجا لایا میں۔۔ |
یعنی پابندِ احکام بھی ہو چکا۔۔ |
رنج و غم، وہ نئے زخم ہر روز کے۔۔ |
یہ تماشاۓ ایّام بھی ہو چکا۔۔ |
بے خودی، بے کلی میں مزہ ہے کہ میں۔۔ |
خوگرِ تابِ آلام بھی ہو چکا۔۔ |
زخم گہرے ملے تھے جو، وہ بھر گئے۔۔ |
ہجر شمشیرِ گلفام بھی ہو چکا۔۔ |
جو غرور آپ کا تھا اسے ہے زوال۔۔ |
دیکھیے مجھ کو آرام بھی ہو چکا۔۔ |
مٹ گیا ہے دماغی خلل بھی مرا۔۔ |
بس کہ کہرام و سرسام بھی ہو چکا۔۔ |
کوئی شکوہ نہ کچھ حاجتِ نامہ بر۔۔ |
زیبؔ اتمامِ پیغام بھی ہو چکا۔۔ |
معلومات