آج ہے دل میں جو ہَل چَل کبھی ایسی تو نہ تھی
خواہشِ دید یوں بے کَل کبھی ایسی تو نہ تھی
تھی جو چنگاری محبّت کی بھڑک اُتھی ہے
آگ جو دل میں گئی جل کبھی ایسی تو نہ تھی
ہجر میں بیتیں گے دن یہ کبھی سوچا ہی نہ تھا
جو بھی ساعت ہے کٹی کَل کبھی ایسی تو نہ تھی
سامنے آتا ہے چہرہ وہ کئی رنگ لئے
اُس کی تصویر مکمّل کبھی ایسی تو نہ تھی
زندگی ہجر کے عالم میں بھی گزری پہلے
اب جو دُو بھر ہوئی پل پل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیوں مرا صبر کا پیمانہ ہے لبریز ہوا
زندگی جہدِ مسلسل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا قدم آگے بڑھائیں وہ زمیں جن کے لئے
بن گئی اب ہے جو دلدل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیوں نظر یار کی غافِل ہوئی طارق ہم سے
کیا نہیں اس کا کوئی حل کبھی ایسی تو نہ تھی

0
15