میں کتاب عقل سے دور ہوں مجھے عشق والا نصاب دے
کوئی یار دے اسے پیار دے مجھے دل لگانے کا باب دے
جو ہوئے تھے پیدا اذاں ہوئی ہیں مرے تو جا کے ہوئی نماز
اے خدا تو اتنی ہی دیر کا بھلا کہہ رہا ہے حساب دے
یہ کرم ہے یا ہے ستم ترا یہی بندے ہیں ترے سوچتے
تجھے بھول جائیں عذاب دے تو جو یاد آئے ثواب دے
مری زندگی کو تلاش ہے کسی خاص کی مجھے آس ہے
ہے جو زندگی مری مضطرب مجھے زندگی کا شباب دے
میری حکمرانی تھی ہر جگہ میں نے ہار مانی تھی کب بھلا
مگر آج ہارا ہوا ہوں میں کیا وجہ ہے اس کی جواب دے
جو منافقوں کہ یوں درمیان میں کیا تھا فیصلہ جنگ کا
جو دیا تھا بیٹا شہید کا کوئی پھر سے ایسا خطاب دے
جو کہے گا خالدِؔ ناتواں جو کرے گی اس کی زباں بیاں
ہے فغاں جو دل میں نہاں وہی مجھے لمحہ لمحہ عتاب دے

0
244