جن سے خوشیاں ، پُر آشیانے رہے
نہ وہ لوگ اب نہ وہ زمانے رہے
۔
غمِ دل کو لگن سخن سے تھی
شعر ترسیل کے بہانے رہے
۔
عیب اپنا دکھا نہیں ، گرچہ
آئنہ خانے ان کے جانے رہے
۔
کسی نے آنکھ سےنہیں دیکھا
کان تک عشق کے فسانے رہے
۔
کوئی مخلص ملا نہ چارہ گر
بس بناوٹ کے کارخانے رہے
۔
ہم کو بھایا نہ یہ جہاں ، اور لوگ
دیر تک کیوں یہاں نہ جانے رہے
۔
عشق کی راہ پر نہ پاؤں رکھا
صرف وہ لوگ ہی سیانے رہے
۔
کام آئیں گے جو لحد میں بھی
ان کے لب پر سدا ترانے رہے

0
5