جب کوئی خال خال جانتا ہے
وہ مرا بال بال جانتا ہے
لب ہلانا بھی کیا ضروری ہیں
جب دلوں کا وہ حال جانتا ہے
عزّتِ نفس کا کِیا سودا
عزّتوں کو وہ پال جانتا ہے
مجھ پہ آیا جو ترس پوچھے وہ
اور کیا کیا کمال جانتا ہے
کون کیسی نظر سے دیکھے گا
اُس کا حسن و جمال جانتا ہے
عشق اور وہ بھی میں کروں اس سے
کیا ہے میری مجال جانتا ہے
رابطہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا
ہو گیا ہے بحال جانتا ہے
اب تو چاروں طرف نجیبوں کا
پڑ گیا کیسا کال جانتا ہے
کوئی چلتا نہیں بہانہ اب
ہے یہ کتنا محال جانتا ہے
خوف اس کو کوئی نہیں ہوتا
صرف اس کو جو ڈھال جانتا ہے
فکرِ دنیا کرے گا وہ کیونکر
اس کا سب جان و مال جانتا ہے
کام آتی ہے اس کی ستّاری
ہر کوئی اپنا حال جانتا ہے
وہ جو نغمہ سرا ہو سب سُن لیں
سُر وہ سارے وہ تال جانتا ہے
طارق آؤ کریں کہے جو وہ
ورنہ سب قیل و قال جانتا ہے

0
9