انصاف جب ہو، رہتا ہر کوئی پھر اماں سے
ڈرتے مگر ہیں سارے آزارِ ناگہاں سے
منصوبے کچھ اہم ہونگے اس لئے ہے عجلت
اندازہ ہو گیا ہے رفتارِ کارواں سے
بہتے ہیں علم کے دریا، فیضیاب ہو لیں
تشنہ لبی نہ رہ پائیں دیں کے کہکشاں سے
چھائے بہار تو منظر دلفریب و دلکش
ناآشنا بھی دل ہو جائے غمِ زیاں سے
تعلیم کا شجر گر پروان پائے گھر میں
خوشیاں جھلک دکھائیں، دیوار و آشیاں سے
اعمال نیک جم کر کرنے ضروری رہتے
رحمت برستی جائے پھر کیسی آسماں سے
بیداری کی مہم ناصؔر ذمہ داری ہے اک
ممکن ہو خاتمہ شر کا رفتہ تب جہاں سے

0
57